آبَائِکُمُ الْأَوَّلِیْنَ (26) قَالَ إِنَّ رَسُولَکُمُ الَّذِیْ أُرْسِلَ إِلَیْْکُمْ لَمَجْنُونٌ (27) قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَیْْنَہُمَا إِن کُنتُمْ تَعْقِلُونَ (28)
اور یہ احسان ہے جو تم نجھے جتارہے ہو جس کے عوض میں تم نے بنی اسرائیل کو غلام بنارکھا ہے٭فرعون نے پوچھا اور یہ رب العالمین کیاچیز ہے ٭اس نے جواب دیا کہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا خداوند اگر تم لوگ یقین کرنے والے بنو٭اس نے اپنے ارد گرد والوں سے کہا، سنتے نہیں ہو٭اس نے کہاتمہارابھی رب اور تمہارے اگلے آباء واجداد کابھی رب٭ فرعون نے کہا تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجاگیا ہے بالکل خبطی ہے٭ موسیٰ نے کہا مشرق ومغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب اگر تم عقل رکھتے ہو ٭
…… آیت: 22-28 …… سورہ :شعراء …… پارہ: 19 ……
یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے اس اظہار احسان کا جواب دیا ہے اور غور کیجئے کہ کس قدر بلیغ جواب دیا ہے۔ فرمایا کہ تم اپنا یہ احسان مجھے اپنے اس ظلم عظیم کو جائز ثابت کرنے کے لیے جتا رہے ہو کہ تم نے بنی اسرائیل کو غلام بنارکھا ہے! مطلب یہ ہے کہ یہ احسان ہے تو سہی، اس کاشکریہ لیکن اس احسان کے بدلے میں تمہیں یہ حق تو نہیں حاصل ہوسکتا کہ تم تمام بنی اسرائیل کو غلام بنائے رکھو اور میں اس کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھاؤں۔ فرعون اپنے طعنہ اور اظہار احسان کا جواب تو ایسا مسکت پاگیا کہ اس کے لیے مزید کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہ گئی اس وجہ سے اس نے اپنا بھرم رکھنے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دعوائے رسالت کا مذاق اڑانے کی کوشش کی۔حضرت موسیٰ وحضرت ہارون علیہما السلام نے اس کے سامنے اپنے آپ کو اللہ رب العالمین کے رسول کی حیثیت سے پیش کیاتھا ،اس نے رب العالمین کا مذاق اڑایا کہ یہ رب العالمین کیا چیز ہے جس کے تم دونوں رسول بن کر آئے ہو۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ سب سے بڑا دیوتا کا اوتار اور رب العالمین تو میں ہوں، تومیرے ہوتے اور کون رب العالمین ہے جس نے تم کورسول بناکر بھیجا؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کے اس گستاخانہ طنز کے جواب میں اپنی دعوت کا ایک قدم اور آگے بڑھادیا۔ فرمایا کہ تمہارا رب العالمین وہی ہے جو آسمانوں اور زمین اور جوکچھ ان کے درمیان ہے، سب کا رب ہے اس کو مانویا نہ مانو اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہے، بلکہ خود تم لوگوں پر ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جواب فرعون کے کبر پر ایک کاری ضرب تھا اس وجہ سے وہ تلملا اٹھا اور درباریوں کی طرف متوجہ ہوکر بولا کہ تم لوگو سن رہے ہو، یہ شخص کیا کہہ رہا ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے اس غیض وغضب کی کوئی پرواکیے بغیر اپنی دعوت کا ایک قدم اور آگے بڑھا دیا: فرمایا کہ تمہارا بھی رب اور تمہارے اگلے آباء واجداد کا بھی رب ! یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ باطل ادیان کی بنیاد تمام تر پچھلوں کی تقلید ہی پر ہوتی ہے اس وجہ سے حضرت موسیٰ نے لگے ہاتھوں یہ حقیقت بھی واضح فرمادی کہ اگر اس معاملے میں تم نے اپنے باپ دادا کی روایات پر بھروسہ کیا ہے تو یہ پھروسہ بء بنیاد ہے۔ ان کا رب بھی رہی ہے جس کی دعوت میںدے رہا ہوں۔ اگر انہوں نے اس کو چھوڑ کر سکی اور کو رب بنایا تو یہ ان کی ضلالت وجہالت ہے، ان کی کورانہ تقلید کر کے اپنی عاقبت برباد نہ کرو۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب ان کے آباؤاجداد کی گمراہی بھی واضح کردی تو فرعون کا پارہ بہت چڑھ گیا۔غصہ سے جھنجھلا کر اس نے نہایت تحقیر انگیز طنزیہ انداز میں درباریوں سے کہا تمہارا یہ رسول جو بزعم خویش تمہاری طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہے، مجھے تو بالکل ایک دیوانہ آدمی معلوم ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جب یہ شخص ہمارے آباؤاجداد جو بھی احمق اور گمراہ ثابت کر رہا ہے تو اس کے پاگل ہونے میں کیا شبہ رہاَ
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی اس بد تمیزی کا بھی نوٹس نہیں لیا بلکہ اس کو بالکل نظر انداز کر کے اپنی دعوت کی راہ میں ایک قدم اور آگے بڑھ گئے۔ فرمایا کہ وہی مشرق ومغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے بشرطیکہ تم لوگو عقل سے کام لو اور سوچنے سمجھنے والے بنو!یہ فعرون کی خدائی پر حضرت موسیٰ کی آخری ضرب تھی وہ اپنے آپ کو سورج کا اوتار سمجھتا تھا۔ حضرت موسیٰ نے اس پر واضح کردیا جس کو نہ مشرق پر کوئی اختیار نہ مغرب پر۔اگر وہ اپنے آپ کو رب سمجھتا کی اور اس کو رب ماننے والوں کی عقل کا فتور ہے۔ آپ لوگ اپنی عقل سے کام لوگے تو یہ بات ایسی واضح ہے کہ کسی کو اس کے سمجھنے میں کوئی دشواری پیش آنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔